تفسیر روح القرآن
اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ ج وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّـبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ ج اُوْلٰٓئِکَ مُبَرَّئُ وْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ ط لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ ۔ (النور : ٢٦)
(خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے، یہ مبرا ہیں ان تہمتوں سے جو وہ لگاتے ہیں، ان کے لیے ہی بخشش اور عزت والی روزی ہے۔ )
ایک فطری اور واقعاتی دلیل
اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت اس طرح بنائی ہے کہ انسان اپنی رفاقت اور اپنی معاشرت کے لیے ہمیشہ ایسے ساتھی کو تلاش کرتا ہے جس کے ساتھ فطری ہم آہنگی ہو، عادتوں میں یکسانی ہو، میلانات اور رجحانات ملتے جلتے ہوں، طبعی ذوق میں باہمی مناسبت ہو۔ اور اگر ایک ساتھ رہنے والوں میں ان چیزوں کا فقدان ہو تو کوئی شخص بھی ایسے شخص کو ساتھی بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جبر اور حبس ہو تو ایک مجبوری ہے، ورنہ اختیار اور ارادہ کے ساتھ ہر طرح کا اختلاف ہوتے ہوئے بھی مصاحبت اور معاشرت ایک خواب تو ہوسکتا ہے، حقیقت نہیں ۔
وقتی رفاقت بھی کسی قسم کی یکسانی کے بغیر ایک سزا سے کم نہیں، لیکن اگر میاں بیوی کی طرح زندگی بھر کی رفاقت کا تعلق ہو جس میں خلوت و جلوت کا امتیاز بھی ختم ہوجائے تو ایسی صورت میں اگر طبیعتوں میں مناسبت نہ ہو اور دونوں ایک دوسرے سے وفا کے رشتے میں منسلک نہ ہوں، ایک دوسرے کا لباس ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بیگانہ اور بیزار ہوں، ایک شرم و حیاء کا پتلا اور دوسرا شرم و حیاء کو رجعت پسندی، تنگ نظری اور گائودی اخلاق کی علامت سمجھتا ہو تو ایسے زندگی بھر کے ساتھی چند روز کے ساتھی بھی نہیں رہ سکتے اور مزید یہ بات بھی ہے کہ انسان اگرچہ اپنے اندر بڑی گہرائی رکھتا ہے اور اس کی شخصیت کی کئی پرتیں ہیں لیکن چند دنوں کی ہر وقت کی رفاقت بھی ہر گہرائی میں جھانکنے کے قابل بنا دیتی ہے اور شخصیت کی پرتیں کھلنے میں دیر نہیں لگتی۔ تعلق میں خیانت اور وفا میں کمزوری ہزار کوشش سے بھی چھپائے نہیں چھپتی۔ شوہر اگر برا ہے تو برائی صرف ایک برائی تک محدود تو نہیں رہتی، برائی، برائی کو جنم دیتی ہے تو وہ کس کس برائی پر پردہ ڈال سکتا ہے۔ اسی طرح اگر بیوی نام کی حد تک صالحات، قانتات اور حافظات میں شامل ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ، تو جس طرح متعفن کھانا اپنے تعفن کو چھپا نہیں سکتا اسی طرح برائی اور تعلقات میں خیانت اور وفا میں فریب دیر تک چھپا نہیں رہ سکتا۔ اگر یہ اصول صحیح ہے اور کوئی شخص بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا تو سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طیب ہی نہیں اطیب ہیں۔ جس طرح ان کے اعمال پاکیزہ ، ان کا احساس معصوم، ان کے ہر کام پر عصمتِ الٰہی کا سایہ اور ان کے ہر تعلق میں وفا کی خوشبو رچی بسی ہے اور ان کا پاکیزہ مزاج کسی طرح کی برائی، بے وفائی اور ناگواری کو برداشت نہیں کر سکتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کی رفیقۂ حیات جو تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ محبوب ہوں، جنھیں سب سے زیادہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعتماد حاصل ہو، اور وحی لے کر آنے والا وہ فرشتہ جسے اللہ تعالیٰ نے مطاعِ ملائکہ اور امین بنایا ہے، وہ اس وقت وحی لے کر نازل ہو جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) کے لحاف میں ہوں، لیکن ان تمام فضائل اور قربتوں کے باوجود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی محبوب رفیقۂ حیات کی بے وفائی کی بھنک بھی نہ پڑ سکے۔ ایک معمولی علم و دانش کا آدمی تو شب و روز کی یکجائی میں اس طرح کی غلطی کا ارتکاب نہ کر سکے لیکن جس ذات عظیم پر وحیِ الٰہی اترتی ہو وہ ایسا بے خبر ثابت ہو تو یہ ایک ایسی بات ہے جسے نہ عقل قبول کرتی ہے، نہ اخلاق قبول کرتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اس لیے اس حقیقت سے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ طیب مرد اور طیب عورتیں ہی انسانیت کا وہ اثاثہ ہیں جو باتیں بنانے والوں کی فضول باتوں سے بری ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بخشش لکھ دی ہے اور وہ ان تمام نعمتوں کی مستحق ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ اہل جنت کو عطا فرمائے گا۔
Comments
Post a Comment