تقویٰ اور پرہیزگاری،
بندے کی زندگی پر اس کا اثرات
إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله: أما بعد !
تقویٰ انسانی زندگی کا سب سے قیمتی زیور اور سب سے زیادہ گراں قدر متاع ہے۔ اگر انسان بڑا ہی دولت مند اور حیثیت و وقار کا مالک ہے لیکن وہ “لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ” کا اقرار نہیں کرتا تو جس طرح اس کی دولت مندی اس کی حیثیت، اس کا وقار، اس کا جاہ وجلال اور اس کی شان و شوکت کسی کام کی نہیں بالکل اسی طرح اگر کوئی “لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ” کا اقرار کرتا ہے لیکن اس کے دل میں تقوی کی جوت اور خوشبو نہیں، اس کے اندر تقویٰ کی روشنی نہیں جگمگاتی اور اس کے من میں خدا ترسی کا جذبہ نہیں تو وہ بھی اللہ کی نظر میں قابل احترام نہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ جس مسلمان کے اندر تقویٰ اور پرہیزگاری کی خوبی نہیں پائی جاتی، وہ صرف نام کا مسلمان ہے، کام کا نہیں ۔
ایسا کیوں؟ ایسا اس لیٸے کہ اگر مسلمان ایک جسم ہے تو تقویٰ اس کی روح ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جس جسم کے اندر روح نہیں وہ جسم کسی کام کا نہیں۔ اس طرح اگر کہا جائے کہ مسلمان تقویٰ کے بغیر لاشۂ بےجان ہے تو اس میں ذرا بھی مبالغہ آرائی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاء و رسل آئے، جتنے بھی مجددین و مصلحین آئے، سب نے تمام انسانوں کو تقویٰ کی جوت سے اپنی زندگی کا گوشہ گوشہ منور کرنے کا حکم دیا۔ قرآن پاک میں رب کائنات نے بے شمار جگہوں پر اس کی تاکید کی ہے اور احادیث نبویہ میں بھی تقویٰ اختیار کرنے کی ہدایت جا بجا دی گئی ہے۔
جس طرح سمندر پانی کے بغیر سمندر نہیں رہ سکتا، بیابان میں تبدیل ہو جاتا ہے، اسی طرح جس دل میں تقوی کا گلشن نہ سجا ہو، وہ دل ویران ہو جاتا ہے، اور وہ شیطان کی آماجگاہ اور برائیوں کا مسکن بن جاتا ہے۔
لہذا آئیے، ہم قرآن و حدیث اور آثار صحابہ کی روشنی میں دیکھیں کہ یہ تقوی ٰہے کیا چيز اور اس کے فضائل کیا ہیں؟
تقویٰ کے لغوی معنی بچنے اور حفاظت کرنے کے ہیں اور دینی اصطلاح کی رو سے طاعت کے کاموں میں اخلاص اور معصیت کے تمام کاموں سے احتراز و پرہیز کرنے کا نام ہے تقویٰ۔
(التعریفات:65)
ویسے کلام پاک کے اندر تقوی پانچ معانی میں استعمال ہوا ہے:
خوف و خشیت الہٰی:
ارشاد ربانی ہے:
( يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ ) [الحج: 1]
“لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو! بلا شبہ قیامت کا زلزلہ بہت ہی بڑی چیز ہے۔”
عبادت:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
( يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنْذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ ) [النحل: 2]
“وہی فرشتوں کو اپنی وحی دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاھتا ہے اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم مجھ سے ڈرو۔”
معاصی اور گناہ سے اجتناب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
( يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) [البقرة: 189]
“لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجٸے کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لیے ہے،
(احرام کی حالت میں) اور گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں، بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہو۔ اور گھروں میں تو دروازوں سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔”
توحید:
ارشاد خداوندی ہے:
( إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ ) [الحجرات: 3]
“ بے شک جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کے حضور میں اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لیے جانچ لیا ہے۔ ان کے لیے مغفرت اور بڑا ثواب ہے۔”
اخلاص عمل اور اخلاص نیت:
رب کریم کا ارشاد ہے:
( ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ ) [الحج: 32]
اللہ کی نشانیوں کی جو عزت و حرمت کرے تو یہ اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے ہے۔
تقوی کے ان پانچوں معانی پر اور ان معانی پر پیش کی گئی آیات قرآنیہ پر ذرا غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دراصل انسان اس لیے مسلمان بنتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کرے کیوں کہ جو توحید اختیار نہیں کرتا بلکہ مسلمان ہونے کے باوجود قبروں اور مزاروں پر جا جا کر ماتھا ٹیکتا رہتا ہے، وہ مشرکین کے زمرے سے نکل نہیں پاتا۔ جو اللہ کی عبادت بجا نہیں لاتا، وہ اللہ کی نظر میں سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن صحیح مسلمان نہیں ہو سکتا، جو معاصی سے، گناہوں سے اور گناہ کے کاموں سے اجتناب نہیں کرتا وہ اللہ کے وعدۂ جنت کا مستحق نہیں بن پاتا،
جو اپنے اعمال میں اخلاص نیت کو بروئے کار نہیں لاتا اور جس کا دل خوف خداوندی اور خشیت الہٰی سے لرزاں اور ترساں نہیں رہتا، وہ ہمیشہ شیطان کے نرغے میں رہتا ہے ۔
گویا تقوی ہی سے انسان مسلمان رہ جاتا ہے ورنہ دائرۂ دین و شریعت سے اس کے خارج ہو جانے کا خدشہ ہمہ وقت لگا ہی رہتا ہے۔
ایک آدمی صحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھتا ہے:
اے صحابی رسول!
ذرا مجھے بتا دیجئے کہ یہ تقویٰ کیا ہے ؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس سے پوچھتے ہیں :کیا تم کبھی ایسی راہ سے گذرے ہو جس کے دونوں طرف کانٹے دار جھاڑیاں ہوں۔
وہ آدمی کہتا ہے : ہاں اے صحابی رسول ! ایسا اتفاق تو بارہا ہوا ہے ۔ پھر تم کیسے اس راہ سے گذرے ؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں۔ وہ آدمی کہتا ہے : اپنا دامن سمیٹتے، اپنے آپ کو کانٹوں کی چبھن سے بچتے بچاتے بےحد ہشیاری سے قدم بڑھاتے ہوئے ، ڈرتے ڈرتے گذر جاتا ہوں۔
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
یہی تو تقویٰ ہے۔
(الدرالمنثور:1/61)
معلوم یہ ہوا کہ یہ دنیا برائیوں سے بھری پڑی ہے، ہر جگہ حرام اور شیطانی کاموں کے اڈے کھلے ہوئے ہیں ، ہر موڑ پر شیطان اپنی چال کے پتے لیے بیٹھا ہے، ہر قدم پر شیطان کے کارندے اور دین و ایمان کے راہزن گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں اگر آپ نے ان شیطانی ہتھکنڈوں سے خود کو محفوظ رکھ لیا، معاصی سے اجتناب کیا اور جہاں تک بن پڑا اطاعت خدا اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہوئے اپنی حیات مستعار گذار لی تو یقینا یہی حیات تقویٰ شعاری کہلائےگی۔
فضائل تقویٰ:
تقوی حق و باطل کے درمیان فرق و تمیز کرنے والی شے ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فر مان باری ہے:
( إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ) [المائدة: 27]
“اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔”
ارشاد ہے:
( إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ) [الحجرات: 13]
“اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے والا ہے۔”
ربِّ کائنات کا وعدہ ہے:
( وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ) [الزمر: 61]
“اور جن لوگوں نے پرہیزگاری کی انہیں اللہ تعالیٰ ان کی کامیابی کے ساتھ بچا لے گا، انہیں کوئی دکھ چھو بھی نہ سکے گا اور نہ وه کسی طرح غمگین ہوں گے۔”
تقویٰ جنت کا ٹکٹ ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
( تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا ) [مريم: 63]
“یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے انہیں بناتے ہیں جو متقی ہوں۔”
آج ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی، ہر طرف دہشت و خوف کا ماحول ہے، غبن اور کرپشن عالمی منظر نامہ بن چکا ہے۔ برائیاں فروغ پا رہی ہیں
پوری دنیا ابلیسی نظام حیات کے تار عنکبوت میں پھنستی جا رہی ہے۔ بحر و بر اور آسمان و زمین فساد و بگاڑ کے شکنجے میں ہیں۔ لاکھ لاکھ تدبیریں ہو رہی ہیں ان سب برائیوں کو دور کرنے کی۔ ہزاروں علاج سوچے جا رہے ہیں اس بیماری کے لیے۔ لیکن دنیا والو! سن لو اور یاد رکھو کہ جب تک تمام لوگوں کے اندر تقویٰ کی جوت نہیں جگائی جائے گی یہ کرپشن ختم نہیں ہو گی۔ جب تک خدا ترسی کا فروغ و اشاعت نہیں ہو گا، تب تک تمہاری کوئی تدبیر کام نہیں آئے گی۔ گھوٹالے ہوتے رہیں گے۔ حقوق تلف ہوتے رہیں گے۔غبن کا سامراج پھیلتا چلا جائے گا اور ایک دن ایسا آ جائے گا جب تمہاری دنیا تباہ و برباد ہو جائے گی اور تمہیں حسرت و یاس اور قنوطیت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ لہذا آؤ، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اپنے ہر کام میں خدا ترسی کا جلوہ دکھاؤ۔ تمہاری ہر بات بنے گی اور یہ دنیا تمہاری غلام ہو گی۔ اللہ کرے کہ ہمارے دلوں میں تقویٰ کی روشنی جگمگا اٹھے کہ یہی سب سے قیمتی اور بیش بہا متاع حیات ہے۔
Comments
Post a Comment