Skip to main content

قلبی عبادت توکل مفہوم، اور ثمرات

 قلبی عبادت توکل : 

مفہوم، اور ثمرات 

خطبہ مسجد نبوی


تقوی الہی اختیار کرو اور اس کے لئے نیکیاں کماؤ اور گناہوں کو ترک کر دو؛ کیونکہ یہ رضائے الہی پانے اور جنتوں میں بلند درجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، تقوی الہی دنیاوی اور اخروی بہتری کا بھی ضامن ہے۔

مسلمانو!

ہمیشہ اللہ کی رحمتوں کو ذہن نشین رکھو کہ اللہ تعالی نے تم پر ظاہری اور باطنی ہر قسم کی نعمتوں کی برکھا برسائی، نعمتِ قرآن کی تعظیم کرو، قرآن کریم کی تفسیر کرنے والی سنت نبوی کی بھی تعظیم کرو؛ کیونکہ اللہ تعالی نے انہی دونوں کے ذریعے انسان کو بلند مقام عطا کیا اور فرمایا: {وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ} نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو ؛ اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب ہو ۔ [آل عمران: 139]

ایسے ہی فرمایا: {كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ} ہرگز نہیں! نیک لوگوں کا اعمال نامہ علیین میں ہے [المطففين: 18]


ایک اور مقام پر فرمایا: {كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ} تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لئے بہتر تھا ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں لیکن اکثر تو فاسق ہیں [آل عمران: 110]تو یہاں پر انسان کو رفعت، بلندی ، قدر و قیمت، مقام اور شرف اسلامی عقیدے اور نیک اعمال کی بدولت ملا ہے، انسان اپنے عقائد اور اعمال کے ذریعے اپنی زندگی سنوارتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی بہتری کا باعث بنتا ہے۔


قرآن کریم اور سنت نبوی ان دونوں کے ذریعے اللہ تعالی نے مردہ دلوں کو زندگی بخشی، سینوں کو کینے سے صاف کر دیا، آنکھوں کو بینائی عطا فرمائی، کتاب و سنت کے ذریعے ہی اللہ تعالی نے شرک ، گمراہی، کفر اور الحاد کی بیخ کنی فرما ئی۔ کتاب و سنت کے ذریعے قلب و عقل کو فطرت تبدیل کر دینے والی شہوت اور شبہات سے پاک فرمایا، یہ خالصتاً اللہ کی لوگوں پر رحمت ہے۔


پھر جب اللہ تعالی نے کتاب و سنت کے ذریعے دلوں سے ہر قسم کی آلائش اور بیماریاں نکال دیں، مذموم اخلاق اور بری صفات سے دلوں کو پاک کر دیا تو دلوں میں ایمان جا گزین کر دیا؛ کیونکہ ایمان اپنے مختلف درجات کے ساتھ دل میں اسی وقت جڑیں مضبوط کرتا ہے جب دل ایمان سے متصادم چیزوں سے پاک صاف ہو، ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی ظرف پاک اسی وقت ہو گا جب اس میں سے گندگی نکال کر پاک صاف چیزیں رکھی جائیں گی، تو دل کی مثال بھی یہی ہے۔


اللہ تعالی نے ہمیں یہ بات رسول اللہ ﷺ کو دی گئی پہلی وحی میں ہی سکھلا دی تھی کہ جس کی بدولت آپ ﷺ نبی مبعوث ہوئے، آپ کو آیاتِ  "اقرأ" کے ساتھ نبوت ملی اور سورت مدثر کی آیات سے رسالت ملی، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: {يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ} اے چادر اوڑھنے والے [1]اٹھو اور خبردار کرو [2] اپنے رب کی بڑائی بیان کرو [3] اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو [4]پلیدی کو چھوڑ دو۔[المدثر: 1 - 5] ان آیات میں پہلے تو اللہ تعالی نے آپ کو شرک سے خبردار کیا، پھر شرک پر جمے ہوئے لوگوں کو متنبہ کرنے اور اس کی ہولناکی بیان کر کے شرک کی سزاؤں کو بیان کرنے کا حکم دیا ، اس کے بعد اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے ذریعے تعظیم الہی کا حکم دیا۔ پھر اجمالی طور پر طہارت کا حکم دے کر طہارت کے احکامات کی تفصیل اس کے بعد بیان کی۔ ان آیات میں آپ کو بتوں سے کنارہ کشی، دوری اور بت پرستوں سے اظہار براءت کا حکم ہے۔ یہ آیات اللہ تعالی کے اس فرمان سے مشابہت رکھتی ہیں: {لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا} دین میں زبردستی نہیں ہے ، ہدایت اور گمراہی ظاہر ہو چکی ہیں ، سو جس نے طاغوت (بتوں یا شیاطین) کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا ، اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا [البقرة: 256] تو ان میں بھی پہلے طاغوت کے انکار کا حکم ہے؛ تا کہ دل میں ایمان کی جڑیں مضبوط ہوں۔


اللہ تعالی کا عظیم احسان ہے کہ انسان کو قلب سلیم مل جائے، اور پھر اس کے ذریعے اللہ تعالی انسان کی علم نافع اور عمل صالح کی جانب رہنمائی فرما دے، فرمانِ باری تعالی ہے: {يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ} اس دن مال اور اولاد فائدہ نہیں دیں گے [88]سوائے اس شخص کے جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کے پاس آئے۔[الشعراء: 88، 89]


اور نبی ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ: ( اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِي الأَمْرِ، وَأَسْأَلُكَ عَزِيمَةَ الرُّشْدِ، وَأَسْأَلُكَ شُكْرَ نِعْمَتِكَ، وَحُسْنَ عِبَادَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ لِسَانًا صَادِقًا، وَقَلْبًا سَلِيمًا [ترجمہ: یا اللہ! میں تجھ سے دین پر ثابت قدمی، حصولِ ہدایت کے لئے پر عزمی مانگتا ہوں، اور میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تیری نعمتوں کا شکر ادا کروں اور تیری عبادت اچھے طریقے سے کروں اور میں تجھ سے سچی زبان اور قلب سلیم بھی مانگتا ہوں۔]) اس حدیث کو ترمذی: (3407) اور ابن حبان نے شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

مسلمان کی عزت و رفعت ایمان اور ایمان کی ذیلی شاخوں میں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ} 

عزت تو اللہ، رسول اللہ اور مومنوں کے لئے ہے؛ لیکن منافق اس چیز کا ادراک نہیں رکھتے۔[المنافقون: 8]


اللہ تعالی کی بیش بہا نعمتیں ہر وقت ہمارے ذہن میں ہونی چاہییں تا کہ اللہ کی تعظیم کرتے رہیں۔ قلبی پاکیزگی اسی وقت ممکن ہو گی جب دل کو ہمہ قسم کی بیماریوں سے پاک صاف کریں گے۔ قلبی عبادت کا بدنی عبادت سے زیادہ مقام و مرتبہ ہے، کتاب و سنت میں قلبی عبادات کی کافی تلقین کی گئی ہے، قلبی عبادت کے لئے قلب سلیم حاصل ہو جائے تو یہ اللہ تعالی کی نعمت ہے، رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالی سے قلب سلیم عطا کرنے کی دعا فرمائی۔ سب لوگ قلبی اعمال میں یکساں مقام نہیں رکھتے، چنانچہ نصوص شریعت پر مکمل دسترس اور پختہ عقیدہ توحید رکھنے والے صحابہ کرام اور تابعین عظام جیسے لوگ قلبی اعمال میں بلند ترین درجہ رکھتے ہیں، ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ان میں سب سے اعلی درجہ حاصل تھا۔ قلبی اعمال میں توکل جلیل القدر عمل ہے، توکل کے بغیر قرآن مجید میں ایمان کی نفی کا اشارہ موجود ہے، اور توکل کا یہ مطلب ہے کہ شرعی طور پر جائز اسباب اپنا کر مکمل اعتماد اور بھروسا صرف اللہ تعالی پر کیا جائے، اور یہ شعور رکھے کہ انسان کے بس میں کچھ نہیں؛ اللہ تعالی جو بھی فیصلہ فرمائے گا اسے قبول ہو گا۔ توکل انبیائے کرام کے سرخ رو ہونے کا راز ہے، اور اس قوت کی بدولت انبیائے کرام اپنے دشمنوں پر غالب آتے تھے، توکل موحدین کی امتیازی خوبی ہے۔ خالصتاً قدرت الہیہ سے متعلقہ امور میں غیر اللہ پر توکل شرک اکبر ہے؛ جبکہ دنیاوی امور میں اسباب پر مکمل بھروسا کرنا شرک اکبر سے کم تو ہے لیکن حرام عمل ضرور ہے۔ انہوں نے کہا کہ طاقتور ترین شخص بننے کے لئے اللہ پر توکل کر لیں؛ کامیاب ہو جاؤ گے، 


تقوی الہی اختیار کرو اور اس کے لئے نیکیاں کماؤ اور گناہوں کو ترک کر دو؛ کیونکہ یہ رضائے الہی پانے اور جنتوں میں بلند درجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، تقوی الہی دنیاوی اور اخروی بہتری کا بھی ضامن ہے۔

مسلمانو!

ہمیشہ اللہ کی رحمتوں کو ذہن نشین رکھو کہ اللہ تعالی نے تم پر ظاہری اور باطنی ہر قسم کی نعمتوں کی برکھا برسائی، نعمتِ قرآن کی تعظیم کرو، قرآن کریم کی تفسیر کرنے والی سنت نبوی کی بھی تعظیم کرو؛ کیونکہ اللہ تعالی نے انہی دونوں کے ذریعے انسان کو بلند مقام عطا کیا اور فرمایا: {وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ} نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو ؛ اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب ہو ۔ [آل عمران: 139]

ایسے ہی فرمایا: {كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ} ہرگز نہیں! نیک لوگوں کا اعمال نامہ علیین میں ہے [المطففين: 18]


ایک اور مقام پر فرمایا: {كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ} تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لئے بہتر تھا ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں لیکن اکثر تو فاسق ہیں [آل عمران: 110]تو یہاں پر انسان کو رفعت، بلندی ، قدر و قیمت، مقام اور شرف اسلامی عقیدے اور نیک اعمال کی بدولت ملا ہے، انسان اپنے عقائد اور اعمال کے ذریعے اپنی زندگی سنوارتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی بہتری کا باعث بنتا ہے۔


قرآن کریم اور سنت نبوی ان دونوں کے ذریعے اللہ تعالی نے مردہ دلوں کو زندگی بخشی، سینوں کو کینے سے صاف کر دیا، آنکھوں کو بینائی عطا فرمائی، کتاب و سنت کے ذریعے ہی اللہ تعالی نے شرک ، گمراہی، کفر اور الحاد کی بیخ کنی فرما ئی۔ کتاب و سنت کے ذریعے قلب و عقل کو فطرت تبدیل کر دینے والی شہوت اور شبہات سے پاک فرمایا، یہ خالصتاً اللہ کی لوگوں پر رحمت ہے۔


پھر جب اللہ تعالی نے کتاب و سنت کے ذریعے دلوں سے ہر قسم کی آلائش اور بیماریاں نکال دیں، مذموم اخلاق اور بری صفات سے دلوں کو پاک کر دیا تو دلوں میں ایمان جا گزین کر دیا؛ کیونکہ ایمان اپنے مختلف درجات کے ساتھ دل میں اسی وقت جڑیں مضبوط کرتا ہے جب دل ایمان سے متصادم چیزوں سے پاک صاف ہو، ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی ظرف پاک اسی وقت ہو گا جب اس میں سے گندگی نکال کر پاک صاف چیزیں رکھی جائیں گی، تو دل کی مثال بھی یہی ہے۔


اللہ تعالی نے ہمیں یہ بات رسول اللہ ﷺ کو دی گئی پہلی وحی میں ہی سکھلا دی تھی کہ جس کی بدولت آپ ﷺ نبی مبعوث ہوئے، آپ کو آیاتِ  "اقرأ" کے ساتھ نبوت ملی اور سورت مدثر کی آیات سے رسالت ملی، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: {يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ} اے چادر اوڑھنے والے [1]اٹھو اور خبردار کرو [2] اپنے رب کی بڑائی بیان کرو [3] اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو [4]پلیدی کو چھوڑ دو۔[المدثر: 1 - 5] ان آیات میں پہلے تو اللہ تعالی نے آپ کو شرک سے خبردار کیا، پھر شرک پر جمے ہوئے لوگوں کو متنبہ کرنے اور اس کی ہولناکی بیان کر کے شرک کی سزاؤں کو بیان کرنے کا حکم دیا ، اس کے بعد اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے ذریعے تعظیم الہی کا حکم دیا۔ پھر اجمالی طور پر طہارت کا حکم دے کر طہارت کے احکامات کی تفصیل اس کے بعد بیان کی۔ ان آیات میں آپ کو بتوں سے کنارہ کشی، دوری اور بت پرستوں سے اظہار براءت کا حکم ہے۔ یہ آیات اللہ تعالی کے اس فرمان سے مشابہت رکھتی ہیں: {لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا} دین میں زبردستی نہیں ہے ، ہدایت اور گمراہی ظاہر ہو چکی ہیں ، سو جس نے طاغوت (بتوں یا شیاطین) کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا ، اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا [البقرة: 256] تو ان میں بھی پہلے طاغوت کے انکار کا حکم ہے؛ تا کہ دل میں ایمان کی جڑیں مضبوط ہوں۔

اللہ تعالی کا عظیم احسان ہے کہ انسان کو قلب سلیم مل جائے، اور پھر اس کے ذریعے اللہ تعالی انسان کی علم نافع اور عمل صالح کی جانب رہنمائی فرما دے، فرمانِ باری تعالی ہے: {يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ} اس دن مال اور اولاد فائدہ نہیں دیں گے [88]سوائے اس شخص کے جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کے پاس آئے۔[الشعراء: 88، 89]


اور نبی ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ: ( اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِي الأَمْرِ، وَأَسْأَلُكَ عَزِيمَةَ الرُّشْدِ، وَأَسْأَلُكَ شُكْرَ نِعْمَتِكَ، وَحُسْنَ عِبَادَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ لِسَانًا صَادِقًا، وَقَلْبًا سَلِيمًا [ترجمہ: یا اللہ! میں تجھ سے دین پر ثابت قدمی، حصولِ ہدایت کے لئے پر عزمی مانگتا ہوں، اور میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تیری نعمتوں کا شکر ادا کروں اور تیری عبادت اچھے طریقے سے کروں اور میں تجھ سے سچی زبان اور قلب سلیم بھی مانگتا ہوں۔]) اس حدیث کو ترمذی: (3407) اور ابن حبان نے شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

مسلمان کی عزت و رفعت ایمان اور ایمان کی ذیلی شاخوں میں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ} عزت تو اللہ، رسول اللہ اور مومنوں کے لئے ہے؛ لیکن منافق اس چیز کا ادراک نہیں رکھتے۔[المنافقون: 8]


جبکہ انسان کی ذلت اور رسوائی گناہوں اور نافرمانیوں میں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ} بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے تصادم رکھتے ہیں وہی لوگ ذلیل ترین ہیں۔[المجادلة: 20]

رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالی سے اپنی مناجات میں فرمایا: ( إِنَّكَ تَقْضِي وَلاَ يُقْضَى عَلَيْكَ، إِنَّهُ لاَ يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، وَلاَ يَعِزُّمَنْ عَادَيْتَ، تَبارَكْتَ رَبَّنا وَتَعَالَيْتَ [ترجمہ: بیشک تو ہی فیصلہ فرماتا ہے تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، جس کا تو دوست بن جائے وہ ذلیل نہیں ہوتا، اور جس کا تو دشمن بن جائے وہ معزز نہیں بن سکتا، ہمارے پروردگار تو بابرکت اور بلندیوں کا مالک ہے۔]) اصحاب سنن نے اس روایت کو بیان کیا ہے۔


اور نبی ﷺ سے صحیح ثابت ہے کہ: (ایمان کے ستر سے کچھ زائد درجے ہیں، ان میں سے اعلی ترین: "لا الہ الا اللہ" کا اقرار ہے، اور سب سے نچلا درجہ راستے سے رکاوٹ دور کرنا ہے، نیز حیا بھی ایمان کا حصہ ہے)بخاری و مسلم

ہمارے پروردگار نے زندگی ہو یا موت ہر حالت کے لیے مفید امور کو شریعت میں شامل فرمایا؛ نیز ہمیں ایسے تمام کاموں سے روکا جو ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خالق کائنات کو ہماری نیکی سے نہ تو کوئی فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی ہماری نافرمانی سے اس کا نقصان ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ} بیشک اللہ تعالی تمام جہانوں سے غنی ہے۔[العنكبوت: 6]

اللہ تعالی کی قدرت، علم، حکمت، رحمت، فضل ، احسان اور جود و سخا کے دلائل میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے ایسی عبادات شریعت میں شامل کی ہیں جن کے ذریعے کمال، پاکیزگی، طہارت اور حسن اخلاق کے درجات عبور کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچ جائیں جو ان کے مقدر میں لکھ دیے گئے ہیں؛ تا کہ تمام مسلمان اپنی زندگی میں بھی خوش حال رہیں اور مرنے کے بعد بھی آسودہ زندگی پائیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: {الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (3) أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ} جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انہیں جو کچھ بھی دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں [3]یہی لوگ حقیقی مومن ہیں، ان کے لئے ان کے رب کے ہاں درجات، مغفرت اور با عزت رزق ہے۔[الأنفال: 3، 4]

تو رب رحیم نے قلبی اعمال قرآن و سنت میں بیان فرما دیے ہیں، مثلاً: اخلاص، یقین، ارکان ایمان، خوف، اور امید سمیت دیگر قلبی اعمال کا ذکر فرمایا۔

اسی طرح اللہ تعالی نے کتاب و سنت میں بدنی اعمال بھی ذکر فرمائے ہیں، مثلاً: ارکان اسلام، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، اور دیگر افعال ذکر فرمائے، اور ان اعمال کی درجہ بندی بھی فرمائی۔

تو قرب الہی پانے کے لئے سب سے بڑے اعمال قلبی افعال ہیں، ان افعال کا حکم اللہ تعالی نے قرآن و سنت میں دیا ہے، قلبی اعمال در حقیقت بدنی اعمال کی بنیاد ہوتے ہیں۔

تمام مسلمان قلبی اعمال بجا لانے ،ان کی معرفت اور ان سے متصف ہونے میں یکساں درجات نہیں رکھتے؛ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قلبی اعمال کے سلسلے میں سب سے آگے تھے، انہیں قلبی اعمال میں دیگر تمام افراد پہ فضیلت دی گئی، ان کے بعد تابعین کرام کا درجہ آتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان قلبی اعمال کے متعلق مکمل معرفت رکھتے تھے، ان پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا تھے، انہیں عربی زبان پر مکمل عبور تھا، نیز وہ عقیدہ توحید میں بھی پختہ تھے، جیسے کہ حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "صحابہ کرام میں سے ابو بکر کی فضیلت بہت زیادہ روزوں اور نمازوں کی وجہ سے نہیں تھی، بلکہ یہ ان کے دل میں قرار پانے والے ایمان کی وجہ سے تھی"

تو عظیم ترین اور جلیل القدر قلبی اعمال میں اللہ تعالی پر توکل بھی شامل ہے، فرمان باری تعالی ہے: {وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ} اور اللہ تعالی پر ہی توکل کرو، اگر تم مومن ہو۔[المائدة: 23] تو اللہ تعالی پر توکل کرنے کا اس میں اور دیگر آیات میں ہمیں اللہ تعالی نے حکم دیا ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ: اپنے تمام امور اللہ کے سپرد کر دیں، اور { إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ} [المائدة: 23] میں توکل کو انسان کے مومن ہونے کی شرط بتلایا؛ لہذا اگر انسان کا توکل نہیں تو ایمان بھی نہیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ} آسمانوں اور زمین کا غیب اللہ ہی جانتا ہے، تمام امور اسی کے سپرد ہیں، تو اسی کی بندگی کریں اور اسی پر توکل کریں۔[هود: 123] اس آیت میں اللہ تعالی نے توکل کو عبادت کے مساوی قرار دیا ہے، 

اللہ تعالی پر توکل کرنے والا کامیاب ہے اور اسی کی نصرت بھی کی جاتی ہے، متوکل شخص اپنے نفس سمیت جناتی اور انسانی دشمنوں پر بھی غالب رہتا ہے۔

توکل نہ کرنے والا رسوا اور گمراہ ہوتا ہے، اسے کسی چیز کا فائدہ نہیں ہوتا۔

توکل موحد مومنوں کی خوبی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ} سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور جب اللہ کی آیات انہیں سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں۔ [الأنفال: 2]

اللہ تعالی کی طرف سے جائز قرار کردہ اسباب اپنانا اور انہیں بروئے کار لانا بھی توکل میں شامل ہے۔

ایسے ہی وہ تمام اسباب اپنانا جو تجربے سے معلوم ہوئے ہیں انہیں بروئے کار لانا بھی توکل کا حصہ ہے، لیکن ان اسباب کو اپناتے ہوئے ان پر مکمل اعتماد نہیں کیا جائے گا، بلکہ اعتماد صرف اور صرف اللہ تعالی پر ہی ہو گا، لہذا اسباب ترک کر دینا توکل نہیں۔

 جتنے بھی اسباب ہیں یہ سب اللہ کی مخلوق ہیں، اللہ تعالی جب چاہتا ہے انہیں ناکارہ بنا دیتا ہے تو یہ مفید ثابت نہیں ہوتے اور جب چاہتا ہے انہیں مفید بنا دیتا ہے، تو معاملہ سارے کا سارا اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔


توکل کے باب میں شرک اکبر یہ ہے کہ کوئی اپنے معاملے کو کسی زندہ یا مردہ مخلوق کے حوالے کر دے، اور خالصتاً قدرت الہیہ سے تعلق رکھنے والے معاملے میں مخلوق پر مکمل اعتماد کرے، مثلاً: کوئی کسی بزرگ کے بارے میں کہے کہ: وہ گناہ معاف کرتا ہے، یا دشمنوں کے خلاف مدد کرتا ہے، یا دعائیں قبول کرتا ہے، یا روزِ قیامت شفاعت کے لئے اس بزرگ پر توکل کرے؛ حالانکہ قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ بھی اللہ تعالی کی اجازت سے ہی شفاعت کر پائیں گے، بلکہ تمام مسلمان اور نیک لوگ بھی اللہ کی اجازت سے سفارش کریں گے۔

توکل میں شرک کی صورت یہ بھی ہے کہ انسان کسی مخلوق پر بھروسا کرے کہ وہ اسے شفا دے گا، یا اولاد سے نوازے گا، یا اسی طرح کی کوئی اور امید لگائے۔

توکل میں شرک کی دوسری قسم جو شرک اکبر سے کم تر ہے وہ یہ ہے کہ: انسان کام کر دینے کی صلاحیت کرنے والے پر مکمل بھروسا کر ڈالے، مثلاً: ملازمت دینے کی صلاحیت رکھنے والے پر حصولِ ملازمت کے لیے مکمل بھروسا کر ڈالے اور اللہ تعالی کو بھول جائے، ساری امیدیں مخلوق سے لگائے۔ تو یہ قسم شرک اکبر سے کم تر ہے اور یہ حرام ہے؛ اس صورت میں ہونا یہ چاہیے کہ صاحب صلاحیت کو محض ایک سبب سمجھے جبکہ اعتماد اور بھروسا صرف اللہ تعالی کی ذات پر ہو۔

سلف صالحین میں سے کسی نے کیا خوب کہا : "کوئی بھی شخص کسی مخلوق سے آس لگائے تو اس کی امیدیں مخلوق سے لگائی گئی آس کے برابر تاخیر کا شکار ہو جاتی ہیں"

جبکہ کسی کو اپنا وکیل مقرر کر کے تمام امور اس کے سپرد کرنا ایسے امور میں جائز ہے جہاں نمائندگی کرنا صحیح ہو، مثلاً: خرید و فروخت میں کسی کو اپنا نمائندہ بنانا جائز ہے، تاہم یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ نمائندہ اور وکیل اللہ تعالی کی مدد اور قدرت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔

اللہ تعالی نے توکل کرنے والوں کو عظیم ترین ثواب کا وعدہ دیا اور فرمایا: {إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ} بیشک اللہ تعالی توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔[آل عمران: 159] تو جس سے اللہ تعالی محبت فرمانے لگے تو اسے ہر قسم کی بھلائی سے نوازتا بھی ہے اور نقصانات سے محفوظ بھی رکھتا ہے۔

اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے: {وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ} اور جو بھی اللہ تعالی پر توکل کرے تو اللہ اسے کافی ہے۔[الطلاق: 3]یعنی اللہ تعالی متوکل شخص کی پریشانیوں اور غموں کو دور کرنے کے لئے کافی ہے، اللہ تعالی متوکل شخص کی موت و حیات کے سب کے سب امور سنوار دیتا ہے۔ یہ بہت بڑا اجر و ثواب ہے، اللہ تعالی نے اتنا بڑا اجر توکل کے علاوہ کسی عبادت کے لیے ذکر نہیں فرمایا، تو توکل کی فضیلت میں یہی ایک شرف کافی ہے۔

امام احمد، ابن ماجہ، اور نسائی رحمہم اللہ نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ: (رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا: اگر لوگ صرف اسی آیت کو ہی تھام لیں تو ان کے لئے کافی ہو جائے۔)

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (جس شخص کو مضبوط ترین آدمی بننا پسند ہو تو وہ اللہ تعالی پر توکل کرلے) اس روایت کو عبد بن حمید نے روایت کیا ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ وَكَفَى بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا} اور اس ذات پر توکل کیجئے۔ جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجئے۔ وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے کے لئے کافی ہے [الفرقان: 58]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، آمین

Comments

Popular posts from this blog

انکشاف: جن ممالک میں کرونا کیوجہ سے زیادہ اموات ھوئی انکا طرز خوراک کیا تھا.

رائٹر کا نام معلوم نہیں ہے انکشاف: جن ممالک میں کرونا کیوجہ سے زیادہ اموات ھوئی انکا طرز خوراک کیا تھا.  چند سال پہلے کی بات ہے میں دبئی میں ہنگری یورپ کی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا ، وہاں میرے ساتھ ہنگری کا ایک انجنئیر میرا کولیگ تھا ، اُس کے ساتھ میری کافی بات چیت تھی ، ایک دن ہم لوگ پیکٹ والی لسی پی رہے تھے ، جسے وہاں مقامی زبان میں لبن بولتے ہیں ، میں نے اسکو بولا کہ یہ لسی ہم گھر میں بناتے ہیں ، وہ بڑا حیران ہوا، بولا کیسے ، میں نے اسے کہا کہ ہم لوگ دہی سے لسی اور مکھن نکالتے ہیں ، وہ اور بھی حیران ہو گیا ، کہنے لگا یہ کیسے ممکن ہے ، میں نے بولا ہم گائے کا دودھ نکال کر اسکا دہی بناتے ہیں ، پھر صبح مشین میں ڈال کر مکھن اور لسی الگ الگ کر لیتے ہیں ، یہ ہاتھ سے بھی بنا سکتے ہیں ، وہ اتنا حیران ہوا جیسے میں کسی تیسری دنیا کی بات کر رہا، ہوں ، کہتا یہ باتیں میری دادی سنایا کرتی تھیں ، کہنے لگا میری بات لکھ لو تم لوگ بھی کچھ سالوں تک آرگینک چیزوں سے محروم ہونے والے ہو ، میں بولا کیسے ، کہتا ، ہنگری میں بھی ایسے ہوا کرتا تھا ، پھر ساری معیشت یہودیوں کے ہاتھ میں آ گئی ، انتظامی معاملات بھ

Heart Disease

Heart disease Heart disease can be prevented if you eat the right food in the right way. The super foods you will find on this list will help boost the health of your cardiovascular system among many other benefits! They can be sourced in a natural way as well. Studies say that you can prevent issues like obesity, diabetes, and clogged arteries with a healthier diet. Check out these items that will give your heart the boost it needs. Oranges: Don’t you think oranges are the best thirst-quenchers ever? Aside from that, they offer plenty of vitamin C, fiber, pectin, potassium, and nutrients. They will flush out sodium, neutralize dangerous proteins, and reduce blood pressure. This way, you can ward off heart failure and heart scar tissue development.
  حکومت کرپٹوکرنسی کاروبار کی اجازت دینے کو تیار 5جی ٹیکنالوجی کی لانچنگ سے متعلق بھی بڑا اعلان کردیا   کراچی (این این آئی)وفاقی وزیر برائے آئی ٹی، ٹیلی کام سید امین الحق نے کہا ہے کہ حکومت دسمبر 2022ء تک پاکستان میں 5جی ٹیکنالوجی متعارف کرانے کے لیے کوشاں ہے اور اس سلسلے میں کام تیزی سے جاری ہے۔حکومت پاکستان میں کرپٹوکرنسی کی اجازت دینے کو بھی تیار ہے اور اس مقصد کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وفاقی بورڈ برائے ریونیو (ایف بی آر) سے ملک میں کرپٹوکرنسی کی تجارت کو محفوظ بنانے کے لیے قانونی لحاظ سے مدد لے رہے ہیں۔پے پال کے پاکستان میں خدمات فراہمی سے انکار کے بعد دیگر ڈیجیٹل پیمنٹ سولیوشنز پر کام کر رہے ہیں۔ یہ بات انہوں نے پاکستان ملائیشیا فرینڈشپ ایسوسی ایشن (پی ایم ایف اے) کی دوسری '' پذیرائی ایوارڈز 2020'' تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ملائیشیا کے قونصل جنرل خیرالنظران عبدالرحمان، پاکستان ملائیشیا فرینڈشپ ایسوسی ایشن کے صدر شاہد جاوید قریشی، سینیٹر حسیب خان، مجید عزیز و دیگر بھی موجود تھے۔وفاقی وزیر امین الحق نے بطور مہمانِ خصوصی تقریب س